افسانہ: کچھ دیر سویرا ہے از قلم محمد ارسلان مجدؔدی
از قلم: محمد ارسلان مجدؔدی
ابا جان یہ سو روپے آپ آپی کو دے دینا تاکہ وہ اسکول جاتے وقت اپنا کرایا ادا کرسکیں۔ میں صبح دس بجے تک تک لوٹ آونگا۔
گیارہ سالہ شہزاد اپنے بیمار والد جو کہ کینسر کی وجہ سے 37 سال کی عمر میں 65 کے محسوس ہوتے تھے۔ شہزاد گھر سے نکلتے وقت یہ سب کہہ رہا تھا۔ شہزاد سانولی رنگت ،کمزور صحت اور معصوم چہرہ رکھنے والا بچہ اسی عمر اپنے والد اور بڑی بہن جو کہ 15 سال کی تھی، دونوں کی کفالت کررہا تھا۔شہزاد روزانہ "نیشنل ہائی وے" پر چلنے والی "کوچ" میں سفر کرکے روزگار حاصل کرتا،جس میں اترتے چڑھتے مسافروں کو مختلف اشیاء فروخت کرتا۔ کبھی بس مالکان ترس کھا کر اسے بس میں چڑھنے دیتے اور اس کی مطلوبہ جگہ پر یا کسی اہم مقام بار اسے اتار دیتے، کبھی کبھار تو بس مالکان اس کے مال میں سے کچھ اٹھا کر کھا لیتے یا اپنے پاس رکھ لیتے۔ صبر کی انتہا دیکھیں۔ یہ 11 سالہ بچہ، اس قدر ماحول سے واقف ہو چکا تھا کہ وہ بس مالکان ان کی ناجائز طریقے سے اٹھائی ہوئی چیزوں کی قیمت نہ مانگتا کیونکہ وہ جانتا تھا روزانہ اس کا واسطہ انہی لوگوں سے پڑتا ہے انہی لوگوں کی وجہ سے اسے اللہ پاک اس رزق عطا کرتے ہیں۔ اسے یہ کام کرتے چار سال گزر چکے تھے۔ یہ شہر سے قریب ایک قصبے میں رہتا تھا۔ بڑی بہن اسکول سے واپس گھر گھریلو کام سمیٹ کر ٹیوشن پڑھاتی، کبھی گھر سے فالتو نہ نکلتی۔ شہزاد بیشک چھوٹا بھائی تھا اور نادان بھی مگر اسے اپنے بھائی کی معصوم باتوں پر پختہ یقین تھا۔ شہزاد پوری رات بسوں میں سفر کرتا اور روزگار کماتا ، صبح دس بجے واپس لوٹتا۔ دوپہر اور شام کے لیے سودا سلف لاتا۔ پھر چھ گھنٹے نیند لیتا۔ عشاء کے وقت پھر وہ سڑک کا رخ کرتا، والد اور بہن اس دعا کے ساتھ رخصت کرتے اللہ تمہیں ہمیشہ ایسے معصوم اور ایماندار رکھیں، سڑک پر ہونے والے حادثات سے محفوظ فرمائے۔
پورا محلہ جانتا تھا کہ شہزاد کی بہن اور والد رات کو اکیلے ہوتے ہیں۔ والد دوائی کھا کر گہری نیند سو جاتے ہیں۔ جبکہ کہ بہن دیر رات تک پڑھتی ہے۔
پڑوس کے کچھ آوارہ لڑکے رات کو آتے، دروازہ بجا کر تنگ کرتے۔ گرمی کا موسم تھا۔ اس لیے شہزاد کی بہن معصومہ صحن میں ہی پڑھ رہی ہوتی۔
آوارہ لڑکے دروازے سے اونچی آواز میں غلیظ باتیں کرتے ، پیشکش کرتے۔ معصومہ صبر کرتی رہی، اللہ سے دعا کرتے رہی۔ بھائی اور ابو کو کو پریشان نہ کرنے کی غرض سے کسی کو کچھ نہ بتایا۔
ایک رات شہزاد کا سامان رات تین بجے فروخت ہوگیا۔ خوشی سے نڈھال وہ گھر کو لوٹا۔ گھر کے دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ کچھ لڑکے دروازہ پار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شہزاد کا اچانک آنا اتفاق تھا۔ شاید خدا نے اپنے بھائی کے ہاتھوں بہن کی عزت محفوظ کرانا تھی۔شہزاد کو قریب پاکر وہ آوار بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا۔ جب معصومہ نیند سے نڈھال ہوکر سو چکی تھی۔ چھوٹی عمر میں شہزاد رات کی تاریکی میں کئی ایسے واقعات دیکھ چکا تھا اور بے انصافی سماج کی بھی پرکھ چکا تھا۔
شہزاد کو قریب پاکر وہ آوار بھاگ کھڑے ہوئے۔
سوچنے اور دیکھنے میں شاید یہ ناممکن محسوس ہو کہ یہ کم عمر بچہ بھی اس قدر باشعور ہوسکتا ہے؟
ہاں ہاں حالات اور وقت کی ٹھوکروں نے اسے سب ذہن نشین کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسے وہ واقعہ بھی یاد تھا۔ جب رات کے تین بجے ٹول پلازہ پر رکنے والی مسافر سے ایک لڑکی نے اترنے کی کوشش کی اور اپنی فریاد وہاں موجود افسران کو بتانی چاہی مگر اس ساتھ مکار نے اس کے سر پر اپنی کہنی سے وار کیے۔ وہ پہلے سے نڈھال تھی۔ یہ ضرب لگنے سے وہ بےہوش ہوگئی۔ ظالم دنیا کے اس بس میں موجود کسی مسافر نے اٹھ کر یہ نہیں پوچھا کہ کیا ظلم ڈھا رہے ہو۔
بس ایسے کچھ افسوس ناک منظر شہزاد کو ہر روز مختلف شکلوں میں دیکھنے کو ملتے۔
صبح ہوئی تو معصومہ حیران کہ شہزاد کب آیا۔ اس نے جگا کر بھائی سے پوچھا کیا آپ کا بھی ناشتہ بناؤں یا نہیں اور رات کو کب اور کیسے گھر میں داخل ہوئے۔ نیم بیدرای میں شہزاد نے بتایا کہ آپ نے دروازہ کھولا تھا۔ دس بار آپ نے پوچھا تسلی کی پھر کہیں جاکر آپ نے دروازہ کھولا لیکن نیند میں اس قدر گم تھیں کہ واپس جاکر سو گئیں اور اب آپکو کچھ ہی نہیں ۔
معصومہ: ہاں میں بھی سوچوں ۔ جب نیند سے اٹھی تو ایسا لگا جیسے کوئی خواب دیکھا کہ جیسے کوئی پورا رات دروازہ پیٹتا رہا اور آپ بھی گھر جلدی آئے ہو۔ جب آنکھ کھلی تو ذہن میں آیا کہ میرا معصوم بھائی تو رات بھر سڑکوں کی دھول کھاتا ہے۔ اس وقت وہ شاید آرام کر رہا ہوگا۔ کہتا تھا آپی جب سورج نکلتا ہے تو میں ٹول پلازہ پر موجود نیم کے درخت تلے آدھا گھنٹا سو جاتا ہوں۔ پھر ایک آفیسر اپنی ڈیوٹی پر آتا وہ روزانہ مجھے جگاتا ہے اور ہم ساتھ ناشتہ کرتے ہیں۔
شہزاد: ہاں آپی میں رات جلدی آگیا تھا۔ خیر آج آپ میرا بھی ناشتہ بنا لیں۔
دوپہر کا وقت تھا۔ شہزاد تین لوگوں کے ساتھ اپنے گھر میں آیا۔ اور دروازہ مضبوط کرنے اور دیواروں پر لوہہے کی گرل لگانے، غرض گھر چاروں طرف چوروں اور آوارہ لڑکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر حفاظتی قدم اٹھایا جا رہا تھا۔
دوسری طرف شہزاد کے والد نے پوچھا بیٹا یہ کون لوگ ہیں اور کیوں آئے ہیں؟ شہزاد نے گزشتہ شب کا سارا ماجرا سنایا اور کہا کہ آپ آپی معصومہ کو کچھ نہ کہنا ورنہ وہ پریشان ہوجائیں گی۔
اب دوسری رات شہزاد رات دو بجے واپس پلٹ آیا۔ کیونکہ اس نے اپنا معمول بدل لیا تھا۔ اب وہ عصر کو ہی چلا جاتا اس لیے رات کو جلدی لوٹ آیا۔
پانچ سال بعد شہر کے مرکزی اسکول کی پرنسپل معصومہ تھی اور شہزاد ایک بڑی دکان کا مالک۔ ہوسیل قیمت پر لوگوں کو سامان دیتا۔ یہ دکان اس نے ایک آفیسر سے ادھار لے کر بنائی تھی۔ نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ پولیس آفیسرز بھی نیک ہوتے ہیں اور اچھی صحبت دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہزاد جیسا معصوم اور مسکین کامیاب صرف مسلسل محنت، فکر اور نیک آفیسرز کی صحبت میں ہوا۔
یہ وہ آفیسرز تھے جو رات دیر تک آپس میں باتیں کرتے اور شہزاد غور سن کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا۔ یہی آفیسرز بارش، دھوپ، سردی، گرمی میں اس کو تحفظ فراہم کرتے۔
Comments
Post a Comment
Comment for more information or send me email on marsalan484@gmail.com . Thanks