معرفت الہی سے ہم دور کیوں؟ ازقلم:محمد ارسلان مجددی

 

معرفت الہی سے ہم دور کیوں؟

ازقلم:محمد ارسلان مجددی



آج میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ مختصر زندگی میں  پرسکون رہنے کے لیے ہم کئی بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔  اسلامی تناظر میں  جب میں نے فلسفہ زندگی سمجھنے کی کوشش کی تو  سب سے پہلے جامعہ کی سطح پر پڑھائی جانے والی تمام فلاسفر کو پڑھا پھر آخر میں "ڈاکٹر علامہ محمد اقبال" کا فلسفہ خودی  اور اسلامی فلسفہ حیات نے "معرفت الہی " کی طرف اشارہ کیا۔ معرفت الہی کو سمجھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا تمام جہانوں کا سکون  اللہ تبارک و تعالی کی محبت میں ہے۔

معرفت کے لفظی معنی پہچاننے کے ہیں۔ دینی  اصطلاح میں  معرفت کا مطلب  اللہ پاک کی ذات کو پہچننا ہے۔یہ کہنا غلط ہے کہ اس دور میں "معرفت الہی" کسی کو میسر نہیں۔ جن خواتین اور مرد حضرات  کو یہ توفیق حاصل ہوئی  وہ زیادہ وقت عبادت میں صرف کرتے ہیں۔ ہاں یہ الگ بحث ہے کہ ظاہر ی طورپر دنیاوی رنگ میں نظر آتےہیں۔مگر باطنی و ظاہری طور پر  عبادت میں مگہن رہتے ہیں لیکن رعایاکاری سے اجنتاب کرتے ہیں۔ یہ ان کی پرہیزگاری کہہ سکتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم" کے بعد "صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہ "اور پھر  "اولیاء کرام" نے ہمیں "معرفت الہی" حاصل کرنے پر زور دیا لیکن ہماری دلچسپی اور رجحان تبدیل ہوا تو آج حقیقی اولیاء کرام پہچاننے اور ان کی صحبت حاصل کرنے سے ہم قاصر ہیں۔  آج بھی اعلی علم رکھنے والے معلمین اور بزرگان دین موجود ہیں۔ علماء حق اور بزرگان دین کی لکھی ہوئی کتابیں بھی موجود ہیں۔ خوشگوار بات یہ کہ وقت کی ضرورت کے مطابق وہ کتابیں  "پی ڈی ایف  کتاب" کی صورت میں مختلف ویب سائٹ پر موجود ہیں۔  اگر ہماری لگن ہو تو وہ کتابیں تلاش کرکے اور باعمل اور کامل معلمین سے "معرفت الہی" کا علم سیکھ کر اس پر عمل کر سکتے ہیں۔

ہم انسانوں میں ایک مشترکہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم کائنات کا علم  حاصل کر سکیں یعنی چمکتے ستاروں کی پیاری  روشنی کا  راز، برستے بادلوں کا راز، پہاڑوں پر گرتی برف  اسی طرح کے کئی پوشدہ راز جو ہمیں صرف معرفت الہی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ یعنی جب ہم اللہ پاک کی عبادت میں مصروف عمل ہوتے ہیں تو اللہ پاک کی تخلیق کردہ ہر چیز کا مشاہدہ کرنے لگتے ہیں۔  بیشک اس پروردگار کی ہر تخلیق میں کئی راز چھپے ہوتے ہیں۔ مثلا ہم ایک جڑی بوٹی کو اپنی فصل میں اگنے نہیں دیتے کہ یہ باقی فصل پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف علم رکھنے والا حکیم اسی جڑی بوٹی کی اہمیت سے واقف ہونے کی وجہ سے   اس سے کئی فائدہ مند ادویات بنا کر انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔

اب جو شخص اللہ پاک کی محبت میں گرفتار ہوگا وہ اس کی ہر تخلیق کی قدر کرے گا اور بلاوجہ کسی چیز کی ناقدری نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ "معرفت الہی" کی وجہ سے کئی پوشدہ راز سے واقف ہو چکا ہے۔ آج کے اس آرام و آسائش شدہ ماحول میں  انسان "ذہنی اور قلبی "سکون سے محروم ہے۔  تحقیقاتی نتائج آگاہ کرتے ہیں کہ اس جدید دور میں نفسیاتی مریض کی تعداد کثیر ہے۔ یعنی تمام سہولیات ہونے کے باوجود ہم قلبی سکون سے خالی ہیں۔ یہ سکون صرف ایمان پختہ کرنے سے حاصل ہوگا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا اور انھیں کے لئے امن وسکون ہے۔

(سورئہ انعام/۸۲)

معرفت الہی حاصل کرنے کے لیے حضور نبی کریم ﷺ سے محبت، ان کے فرمان پر عمل لازم ہے۔ آج ہم  اللہ اور اس کے احکام پر عمل پیرا کیوں نہیں ہیں؟ آخر تمام وسائل میسر ہونے کے باوجود ہم علم معرفت اور اعلی اساتذہ سے مستفید کیوں نہیں ہوئے؟ یہ سستی ہم کب دور کریں گے؟ موت اور قیامت کا پتا نہیں، اس لیے معرفت الہی اور محبت رسول ﷺ حاصل کرنے کی بھرپور اور جلد کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

انصاف کا ترازو برابر از قلم محمد ارسلان مجددی

اجڑ گیا گھر

مجبور عوام از قلم محمد ارسلان مجددی