"آلات جراحی کے بانی مسلم سائنسدان ابولقاسم الزہراوی" از قلم: محمد ارسلان مجددیؔ
"آلات جراحی کے بانی مسلم سائنسدان ابولقاسم الزہراوی"
از قلم: محمد ارسلان مجددیؔ
جدید دنیا میں موجود سائنسی ایجادات اور ترقی میں نامور
مسلم سائنسدانون کی انتھک محنت شامل ہے۔ جب بات ہو میڈیکل سائنس میں خاص طور پر
آلات جراحی کی تو ہم مسلمان فخر سے سر
اٹھا کر عظیم سائنسدان "ابوالقاسم الزہراوی " کا نام لیتے ہیں۔
آپ کو بطور مسلم سائنسدان پاکستان کی نصابی کتب میں بھی پڑھا یا جاتا ہے۔ آپ کا پورا نام "ابو
القاسم خلف بن عباس الزہراوی" ہے۔ قرطبہ کے شہر الزہراء میں پیدا ہوئے
اسی نسبت سے آ پ "الزہراوی" کہلاتے ہیں۔ ان کے والد کا نام عباس تھا۔ ان کے آباءو اجداد عربی النسل
تھے۔ جو مسلم فاتحین کے ساتھ اسپین آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ابو
القاسم الزہراوی 936 عیسوی میں پیدا ہوئے اور
1013 عیسوی میں وفات پائی۔ آپ شاہی طبیب کی حیثیث سے خدمات انجام دیتے رہے۔
اللہ پاک نے اس عظیم سائنسدان کوطبیب، جراح اور مصنف جیسی کئی اہم خوبیوں سے
نوازا۔ الزہراوی تجربہ کار طبیب ہونے کی وجہ سےاپنی کتاب میں آنکھوں کے امراض،
کان، حلق، دانت، مسوڑھے، زبان، عورتوں کے امراض، فنِ تولید، جبڑہ اور ہڈیوں کے
ٹوٹنے پر تفصیلی ابواب تحریر کیےہیں۔
الزہراوی کی مشہور اورسب سے بڑی تصنیف “التصریف لمن عجز عن
التالیف” ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس دور
میں کینسر جیسی بیمار ی کے لیے آلہ دریافت کیا، پھر استری سے کئی بیماریوں کا علاج بھی کیا۔ آ پ کو یہ بھی اعزا ز حاصل ہے کہ پہلی مرتبہ
"ہیموفیلیا" کو نہ صرف دریافت کیا بلکہ
اس پر تفصیل بھی لکھی۔
یاد رہے ہیموفیلیا ایک نایاب عارضہ ہے جس میں آپ کا خون عام طور
پر نہیں جمتا ہے کیونکہ اس میں خون جمنے والے پروٹین (جمنے کے عوامل) کی کمی ہوتی
ہے۔. اگر آپ کو ہیموفیلیا ہے تو ، آپ چوٹ کے بعد زیادہ دیر تک خون بہا سکتے ہیں
اگر آپ کا خون عام طور پر جم جاتا ہے۔
عام طور پر چھوٹے زخم
سےزیادہ پریشانی نہیں ہوتی ۔ اگر آپ کو جمنے والے عنصر پروٹین کی شدید کمی
ہے تو ، صحت کی زیادہ سے زیادہ تشویش آپ کے جسم کے اندر خاص طور پر آپ کے گھٹنوں ،
ٹخنوں اور کہنیوں میں گہری خون بہہ رہی ہے۔. یہ اندرونی خون بہنے سے آپ کے اعضاء
کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، اور یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔
ہیموفیلیا ایک جینیاتی خرابی ہے۔. علاج میں مخصوص جمنے والے
عنصر کی باقاعدگی سے تبدیلی شامل ہوتی ہے جو کم ہوتی ہے۔
درج بالا مختصر
ہیموفیلیا کے تعارف سے ہم سمجھ سکتے ہیں
کہ یہ کتنی خطرناک بیماری ہے۔ اور اس سے بچنے کے لیے" ابو القاسم
الزہراوی" کتنی تحقیق کی ہوگی اور
خدمت خلق کی خاطر علاج بھی کیا ہوگا۔
ان کی لکھی گئی تفصیل اتنی کارآمد ثابت ہوئی کہ آج اس خطرناک بیماری کی آگاہی کےلیے "عالمی
دن "بھی منایا جاتا ہے۔ ہر سال 17
اپریل کو اس کا " عالمی دن "منایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ1963ء
میںFrank Schnabelنے مذکورہ فیڈریشن کی بنیاد رکھی اورپھر پہلی بار اس پلیٹ فارم
سے 1989ء میں یہ یوم منایا گیا، جس کا مقصد مرض سے متعلق ہر سطح تک معلومات عام
کرنا تھا۔
کم وبیش 77 سالہ زندگی
میں ابوالقاسم نے "وسطی ایشاء" سمیت "اہل یورپ "کے ذہنوں میں
بھی جگہ بنا لی۔ ان کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ "اہل یورپ" نے "آلات
جراحی "کا علم ان کی کتابوں سے سیکھا اور مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکےاپنے"میڈیکل کالج" کے نصاب کا حصہ بھی بنا لیا۔ بعد
ازاں ان کی "تصانیف" کے اسباق
کا حوالہ اپنے نام منسوب کرکے "الزہراوی
"کا نام ہٹا نے کی کوشش کی گئی۔ آپ کی کتاب "الزہراوی" تقریبا" چار صدیاں "یعنی پندرہویں
صدی سے اٹھارویں صدی عیسویں تک یورپ کے
اطباء کا واحد حوالہ رہی۔
1368
ء میں ابوالقاسم کی جراحی یورپ میں خوب مشہور ہو
چکی تھی۔ مغربی طب پر ابن رشد اور ابوالقاسم کا بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ یعنی"
اہل عرب اور یورپ "نے "میڈیکل سائنس" کے آلات جراحی میں جو بھی
ترقی کی وہ صرف "ابولقاسم
الزہراوی" کی محنت کا نتیجہ ہے جس سے آج بھی دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ اہلِ
مغرب نے ان کے نام کے تلفظ اس طرح بگاڑے کہ آخر میں ان کا نام " بو رقایس یا
البقاسس کہا جانے لگا۔
ابن رشد نے بھی "
طب " کی دنیا میں خاص نام کمایا گو کہ ان کو شہرت کا قطعا شوق نہیں تھا۔
کیونکہ یہ بھی اندلس کے شہر قرطبہ کے خاص خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا پورا نام “ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد
بن رشد القرطبی الاندلسی” ہے، 520 ہجری کو پیدا ہوئے، فلسفہ اور طبی علوم میں شہرت
پائی، وہ نہ صرف فلسفی اور طبیب تھے بلکہ قاضی القضاہ اور کمال کے محدث بھی تھے۔
یاد رہے آپ کے اباؤ اجداد بھی قاضی کے عہدے پر فائز رہے اور یہی آپ کی وجہ شہرت بنی۔ طب کی دنیا میں " ابوالقاسم الزہراوی
" کے بعد " ابن رشد " کا اہم نام سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ یہ
بھی کہ " ابن رشد " نے ابو
القاسم الزہراوی کی کتابوں سے سیکھا اور
ان سے کئی دہائیاں بعد دنیا میں
تشریف لائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں
مسلم فلاسفر اور سائنسدانوں کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ مگر بانی آلات جراحی میں صرف " ابو القاسم کا
نام لکھا جاتا ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ
آخر ایسا کیوں ہوا کہ اس عظیم سائنسدان کو
بہت کم لوگ جانتے ہیں جن کی وجہ سے آج ہم
جدید دنیا میں نہ صرف میڈیکل سائنس میں
ترقی کر رہے ہیں بلکہ اس سے معاشی طور پر ہم زرمبادلہ بھی حاصل کر رہے
ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق
ملکی برآمدات میں آلات جراحی و طبی آلات کی وجہ سے تقریبا 40 ملین ڈالر اضافہ ہوتا ہے۔
آج جدید ترقی کی دوڈ میں ہم یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ ہم کن کی
وجہ سے اتنی ترقی کر رہے ہیں۔ اہل یورپ کی کاوشوں اور کارناوموں سال میں کئی مرتبہ
جشن مناتے ہیں ۔اپنے مسلم سائنسدانوں کو کیوں یاد نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہےکہ نئی نسل کو ادب پڑھنے کے لیے "عربی اور فارسی" زبان
نہیں پڑھاتے۔ کیونکہ اہل عرب کے تمام
مسلم سائنسدانوں اپنی کتب "عربی اور فارسی " میں تحریر فرمائی ہیں۔ ان
کے علم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں عربی اور فارسی دونوں زبانوں پر عبور
حاصل کرنا ہوگا۔ "ابو القاسم
الزہراوی "کی کتب کے تراجم کروا کر "اہل یورپ" نے طب کی دنیا اس قدر انقلاب برپا کیا ہے تو ہم
کیوں نہیں کر سکتے؟ آج ادب کو سمجھنے اور علم پر گہرا ئی سے غور و فکر تبھی ممکن
ہے جب ہم
زبان پر عبور حاصل کریں گے۔ جابر بن حیان
، ابن الہیثم ، ابراہیم الفزاری، محمد
الفزاری، یعقوب
بن طارق، ابوبکرالرازی
، البیرونی ، ابن
سینا اور عبدالرحمن الخزینی
جیسے نامور سائنسدانوں کی ہمیں آج بھی
ضرورت اور ان نامور سائنسدانوں کے علم و
ادب سے مستفید ہونے کے لیےاپنی سوچ کو
بلند کرنا ہوگی۔ کیونکہ
جن سنگین بیماریوں پر بطور فلاسفر اور سائنسدان ہمارے مسلم سائنسدانوں نے کام کیا تھا اور 9
سے 10 صدیاں قبل ہمیں اپنی تحقیق اور تصانیف
سے آگاہ کر دیا تھا۔ اب یہ ہماری
کمزوری ہے کہ ہم ان کے مہیا کردہ علم سے مستفید نہیں ہورہے جبکہ وہ علم
اور کتب ہمیں بطور مسلمان وراثت میں ملی
ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے اور اس خوش نصیبی کو نئی نسل میں منتقل کرنے کے
" ابن رشد اور ابو القاسم الزہراوی" کی تصانیف تک رسائی حاصل کرنی
چاہیئے اور ان کو جدید تقاضوں کے مطابق ہمارے " میڈیکل کالجز اور
یونیورسٹی" کے نصاب کا اہم حصہ بنانا چاہیئے تاکہ ہمارے طالب علم پڑھ کر بطور
مسلمان فخر محسوس کریں کہ ہم اہل مغرب
" سے پہلے اپنی تصانیف بھی رکھتے ہیں۔
Comments
Post a Comment
Comment for more information or send me email on marsalan484@gmail.com . Thanks