بھلائی
بھلائی
از قلم محمد ارسلان مجددی
وہ پسینہ صاف کرتے ہوئے پلیٹیں جمع کر رہا تھا۔ اچانک ہوٹل مالک نے ایک گھٹیا قسم کی گالی دی اور دوسرا کام کرنے کو کہا۔
قریب بیٹھے ایک بزرگ نے یہ سب دیکھا تو کہا جناب آپ ہوٹل مالک ہیں شکل و صورت سے باشعور بھی نظر آتے ہیں مگر آپ کم ظرف ہیں۔
ہوٹل مالک یہ سنتے ہی بھڑک اٹھا۔ "بابا آپ ادھر کھانا کھانے آئے تھے۔ کھانا کھا چکے ہیں تو یہاں سے تشریف لے جائیں۔ یہ ہمارے ہوٹل کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ بچہ کام چور ہے".
بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس دس سالہ بچے کا بازو پکڑ کر کہا چلو بیٹا آج سے آپ اپنا کام کرنا۔ یہاں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے جہاں عزت ہی نہ ہو۔
بچہ یہ سب حیرانی سے دیکھ ہی رہا تھا کہ ہوٹل مالک آگے بڑھا۔
جناب آپ ہیں کون؟ اجنبی ہو۔ نہ بچہ آپ کو جانتا ہے نہ آپ بچے کو۔ پھر اتنی ہمدردی کیوں؟ کہیں بچے کو اغوا یا گم کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے؟
بزرگ نے بچے کا چھوڑتے ہوئے کہا دیکھو بھائی وہ سامنے میرے تین پلاٹ اور ایک بلڈنگ ہے۔ کافی عرصہ سے دوسرے علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ اب یہاں آگیا ہوں۔ اتنا تعارف کافی ہے۔
یہ کہتے ہوئے بزرگ بچے کو اپنے ساتھ لے گئے اور ایک دکان کا شٹر کھول کر بچے سے کہاں آج سے یہ آپ کی دکان ہے۔ آپ صفائی کریں میں یہاں کریانہ مرچنٹ کا سامان ڈلواتا ہوں۔
تین گھنٹے بعد ایک گاڑی سے سامان اتر اور ایک ٹیبل بھی۔
عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ ایک عورت ہوٹل مالک کے ساتھ اس دکان پر پہنچتے ہی سوالات کا بوجھ بزرگ پر ڈال دئیے۔
آپ کون ہیں اور بچے کو ہوٹل سے کیوں ہٹایا؟ میں ہوٹل والے سے دس ہزار ایڈوانس لے چکی ہوں۔ اب تنخواہ کا وقت بھی قریب ہے۔ کیسے آپ بغیر کسی سے پوچھے اپنے پاس لے آئے ہیں؟
بزرگ دکان میں بچے کے ساتھ سامان ترتیب سے رکھوا رہے تھے۔ خاتون کی بات سن کر اطمینان سے باہر آئے۔
اسٹول سامنے رکھا۔ بہن آپ بیٹھ جائیں۔ دراصل آپ کے بچے کی جس طرح یہ ہوٹل مالک توہین کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر افسوس ہوا۔ اس بچے کے برابر میرا پوتا ہے۔
مجھے رنجش ہوئی کہ اس بچے کی مجبوری نہ ہوتی تو اس شخص کی غلیظ زبان نہ سننا پڑتی۔
اس لیے یہ دکان اس بچے کو کھول کر دی ہے۔ وہ سامنے دیکھیں دکان کا بورڈ اس بچے کے نام کا بن رہا ہے۔ اندر وہ رکھے رجسٹر پر بطور دکاندار اسی بچے کا نام لکھا ہے۔
میں چند دن اس بچے کے ساتھ ہوں۔ جو سامان ڈالا ہے وہ یہ خود آگے بڑھائے گا۔ فکر نہ کہ اس دکان کا کرایہ کس طرح ادا ہوگا۔ یہ دکان اس بچے کے نام کروا دی جائے گی۔ جہاں تک اس بچے کی تنخواہ اور ایڈوانس کی بات آپ نے بتائی ہے۔ تھوڑی دیر میں پیسے منگوا کر آپ کو دیتا ہوں۔ آپ اس ہوٹل والے کو دے دیں۔
تمام بات سننے اور دیکھنے کے بعد خاتون شرمندہ تھیں کہ ایک شفیق انسان پر بغیر سوچے سمجھے غصہ کیا۔
بچہ ماں کے پاس آیا اور آرام سے گلے کر رویا کہ اس بابا نے مجھے آج پیٹ بھر کر کھانا دیا اور میں پہلی بار سکون میں ہوں۔
ماں یہ سن کر پریشان اور اداس ہوئی کہ ہوٹل والا میرے بچے کو پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دیتا تھا؟ وہ دل ہی دل میں کوس رہی تھی۔
چند دن بعد وہ دس سالہ بچہ دکان کا مالک بنا بیٹھا تھا اور ماں سمجھا رہی تھی کہ کسی کو ادھار نہ دینا۔ اس بابا جی کے مطابق کام کرنا۔ گھر کے حالات خوشحال ہو چکے تھے۔
ہوٹل مالک یہ سب دیکھ کر خوش اور حیران تھا کہ اللہ والے اب بھی موجود ہیں جو بغیر کسی لالچ کے دوسروں کی بھلائی کرتے ہیں۔ دوسروں کی توہین برداشت نہیں کرتے اور انہیں خود مختیار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ پاک ایسے نیک دل انسانوں کے درجات بلند فرمائیں آمین۔
بارک اللہ فیک
ReplyDeleteبہت خوب
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب آپ کا قلم مثبت سوچ کو اجاگر کرتا ہے ماشاءاللہ
ReplyDelete