"تنہائی اور خزاں"
"تنہائی اور خزاں"
محمد ارسلان مجددی
آج چالیس سال بعد"عبدالسلام"
پارک کی بینچ پر آ کر بیٹھے تو دل و دماغ میں سکون نہ تھا۔ پودوں اور پھولوں کو
پانی دیتا مالی موسم بہار کی ٹھنڈی ہوا اور پھولوں سے اٹھتی خوشبو کا
رخ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک صاحب اپنے تین بچوں کو ڈانٹ رہے
تھے۔ بیٹا ان پھولوں کی خوشبو محسوس کریں۔ پھولوں کو توڑنا منع ہے۔ وہ دیکھو سامنے
بورڈ پر ہدایت نامہ لکھا ہے۔ اس صاحب کی بات سنتے ہی "عبدالسلام" ماضی
کو یاد کرنے لگے۔
یہ 1986ء کا سال تھا۔ جب عبدالسلام اپنی
اہلیہ آسیہ کے ساتھ بیٹوں عظیم اور علیم کو اس پارک میں لائے تھے۔ یہ اس پارک کے
ابتدائی دن تھے اور پارک میں جب داخل ہوئے تھے صرف چند معزز خاندان تفریح کی غرض
سے موجود تھے۔ ہلکی بوندا باندی کے بعد پارک میں تازہ ہوا اپنی طرف مائل
کرکے پارک میں لا رہی تھی۔ عبدالسلام نے آ کر ہاتھ میں پکڑا بیگ بینچ کے
پاس رکھا، جس میں پانی اور تھورا کھانے کا سامان موجود تھا۔ یہ چند منٹ قبل بیکری
سے خرید لائے تھے تا کہ پارک میں بھوک محسوس ہوتے ہی کھا سکیں۔
بابا یہ بیگ نیچے نہ رکھیں، مٹی لگ جائے
گی۔ عظیم نے بیگ کو زمین سے ہٹا کر سبز گھاس پر رکھنے کی کوشش کی۔ یہ منظر دیکھ کر
آسیہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: دیکھیں عبدالسلام میرا بیٹا نو سال کی عمر
میں کتنا ذہین ہے۔ مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ میرا یہی بیٹا میرے بڑھاپے کا
سہارا بنے گا۔
یہ سنتے ہی عبدالسلام ہنسنے لگے۔
آسیہ بینچ پر بیٹھ کر خاوند سے روٹھ کر
شکایت کرنے لگیں، آپ نے میری ہاں میں ہاں نہیں ملائی اور نہ ہی ان شا ء اللہ کہا۔
عبدالسلام قریب آئے اور بیگ سے نمکو
نکال کر پیش کی۔ "بیگم یہ کھائیں اور میری دعا ہے کہ ہمارے دونوں بیٹے آپ کے
بڑھاپے میں ایسے ہی پیار سے ہمارے ساتھ ہوں۔
آسیہ نے شوہر کے ہاتھ سے نمکو لی اور خود
گھاس پر بیٹھ کر عبدالسلام کے سامنے ہو کر باتیں کرنے لگیں۔
اتنے میں عظیم اور علیم دوڑتے ہوئے
آئے۔ بابا جانی! عظیم پھول توڑ رہا تھا اور وہاں بیٹھے آدمی نے ڈانٹا، علیم
نے باپ کو شکایت کی۔
نہیں بابا میں تو پھول چھونے کی کوشش کر
رہا تھا کیونکہ وہاں بڑے لڑکے نے کہا کہ پھولوں کو ہاتھ نہ لگانا، ان میں کانٹے
ہیں۔ اور وہ دیکھیں وہ انکل تو پھولوں کے گملوں کے درمیان بیٹھے ہیں۔ ان کو
تو کچھ نہیں ہوا۔ عظیم نے وضاحتی جواب دیا۔
عبدالسلام بیٹوں کے ہمراہ ہوئے اور وہاں
بیٹھے مالی سے بچوں کا تعارف کرایا اور کہا بیٹا یہ یہاں پر مالی ہیں۔ پودوں،
پھولوں اور درختوں کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری ہے۔ یہ دیکھو یہ پھولوں اور پودوں
کے اردگرد موجود اضافی گھاس اور جڑی بوٹیوں کو ہٹا رہے ہیں۔ تا کہ پھول اور پودے
مکمل نشوو نما حاصل کر سکیں۔ آپ پھولوں کو دور سے چھونے یا محسوس کرنے کی کوشش
کریں۔
پھر مالی کو تنبیہ کی کہ بھائی آپ انتظامیہ
سے کہہ کر ایک ہدایتی بورڈ لگوائیں کہ کوئی شخص پھول نہ توڑے۔
مالی نے کہا" سر آپ جانتے ہیں
کہ پارک کا افتتاح ہوئے ایک ہفتہ ہوا ہے۔ ان شاء اللہ ہدایتی بورڈ لگ جائیں گے۔"
تینو باپ بیٹے پھر بینچ کی طرف آئے جہاں
آسیہ اکیلی بیٹھی منتظر تھیں۔
چلو اب سب واپس چلتے ہیں۔ گھر پہنچ کر شام
کا کھانا بھی بنانا ہے۔ آسیہ نے بچوں اور شوہر سے کہا۔
عبدالسلام یہ حسین ماضی یاد کر کے مسکرا
رہے تھے۔
اتنے میں ایک شخص قریب آئے اور مسکرا کر
سلام کیا۔ عبدالسلام میاں کافی سالوں بعد نظر آرہے ہیں۔ کس دنیا میں مصروف رہے؟
پروفیسر صاحب بچوں کے بہتر مستقبل کے
لیے بیرون ممالک کی خاک چھانی اور آج خالی ہاتھ اور تنہا بیٹھا ہوں۔ ماشا اللہ آپ
خوش ہیں؟ عبدالسلام نے پوچھا۔
بھائی میں تو خوش ہوں۔ بس بچوں نے ایک نوکر
میری خدمت کے لیے رکھ دیا ہے۔ اب شام کے کچھ گھنٹے اس پارک ٹھنڈی ہوا کھانے چلا
آتا ہوں۔ جو مجھ سے کبھی بے وفا نہیں ہوئی۔آپ کا چہرہ اور لباس بتاتا ہے کہ آپ کو
مفلسی نے گھیر لیا ہے۔ پروفیسر نے کہا۔
مفلسی نے نہیں بلکہ بد نصیبی نے، جب اپنی
اولاد بے وفا ہو جائے تو دل خوشیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ دیکھیں میں اعلی کمپنی
کا لباس پہن رکھا ہے۔ لیکن گھر میں بے رخی ملنے کی وجہ سے یہ دھن اور
اعلی لباس بے معنی ہے۔
جانتے ہیں میں کئی مہینوں سے اس بینچ پر آ
کر خود سے باتیں کرتا ہوں۔ کیونکہ اب تو میری ہمسفر اور ہم راز آسیہ بھی اپنے اللہ
سے جا ملی ہیں۔
آنکھ نم تھیں، تیز ہوا چل رہی تھی، عبدالسلام تنہا بیٹھے تھے۔ پروفیسر کب سلام کرکے چلے گئے، خبر ہی نہ ہوئی۔ ارے میں نے سوچا تھا۔ آج برسوں پرانے دوست پروفیسر صاحب ملے ہیں تو درد بانٹ لون گا۔ مگر بدنصیبی کہ انہوں نے بھی میری داستان نہیں سنی۔ اب میں ہر روز اسی بینچ پر تنہائی اور خزاں محسوس کرتا ہوں۔
بہترین
ReplyDelete