Posts

Showing posts from June, 2021

اجڑ گیا گھر

Image
 اجڑ گیا گھر  از قلم: محمد ارسلان مجددی محلے میں اچانک خبر آئی مستری صاحب کا سڑک حادثے میں ٹانگ ٹوٹ گئی۔ گھر کا واحد سرپرست اور کمانے والا معذور ہوگیا۔ بیٹا،بیٹی اور اہلیہ صدمے تھے اور مستری صاحب جناح ہسپتال میں داخل۔ روازنہ کی حاصل کمائی پر چلنے والا گھر اب کس طرح ادھار لے کر علاج کرے گا۔ کار سوار مستری کی موٹر سائیکل کو ٹکر مار کر اپنی زندگی میں خوش لیکن ادھر خوشیاں روٹھ گئی تھیں۔ اجڑ گیا گھر درج بالا ایک واقعہ حقیقت پر مبنی اپنی کئی داستانیں رقم کرے گا۔ بیٹا،بیٹی اور اہلیہ زمانے کی تلخیاں سہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک نے انہیں رزق ضو حلال کمانے والا سرپرست عطا کیا تھا۔ لیکن سڑک پر چلنے والے بے فکر اور لاپرواہ انسانوں نے ان کی زندگی کو اجاڑ دیا۔  آپ نے اپنے اردگرد کئی لوگ معذور اور لاچار دیکھے ہونگے۔ جن کی زندگی کا سفر آہستہ ہو جاتا ہے۔ معذوری کی وجہ سے اپنا ہنر اور صلاحیت کا جوہر نہیں دیکھا پاتے۔ مجبورا زندگی کے دوسرے شعبے سے دوستی کرنی پڑتی ہے۔ کئی خواتین کے دیہاتوں میں گاس کاٹنے والی مشین سے ہاتھ یا بازو کٹ جاتے ہیں اور زندگی بھر معذور ہو جاتی ہیں۔...

ایک حادثہ

Image
 ایک حادثہ از قلم محمد ارسلان مجددی اماں آپ کہاں جا رہی ہیں؟ دس سالہ ذیشان نے پوچھا... ماں: بیٹا میں کپاس کی فصل سے گھاس کاٹنے جا رہی ہوں۔ مگر تم نہیں چل سکتے.. یہ سنتے ہی ذیشان نے اپنا چہرہ صاف کیا اور ماں سے کہنے لگا۔ اماں مجھے بھی لے چلیں، میں کجھور کے درخت کے  نیچے گری کجھور چن کر کھاؤں گا۔   ماں نے سنا تو پہلے آسمان کی طرف دیکھا پھر اردگرد آب ہوا کا جائزہ لیا۔ پھر ذیشان سے کہا "ہوا تیز اور بادل گھنے چھا رہے ہیں۔ لگتا ہے بارش آئے گی۔  پھسلن میں گھاس اور تمہیں کیسے سنبھالوں گی؟ یہ سنتے ہی ذیشان نے ماں کو دلاسا دیتے ہوئے کہا "اماں میں کجھور اکٹھی کرکے آپ سے پہلے واپس آجاؤں گا". ماں نے حامی بھر لی۔ ایک ایکڑ کے بعد دونوں ماں بیٹا الگ راستے ہو لیے۔ کجھور کے نیچے پہنچ کر ذیشان نے گری ہوئی کجھور چننا شروع کی تو بادل برسنے لگے۔  ذیشان نے تیزی سے اپنی جیب میں کجھور ڈالنی شروع کی تو اچانک سانپ نے اسے ڈس لیا۔ ذیشان برستی برسات میں ماں کی طرف دوڑا مگر ناکام۔ ایک گھنٹے بعد ماں کوس رہی تھی کہ ایک لمحہ ساتھ چلی جاتی تو ایسا نہ ہوتا۔

Goodness

Image
  Goodness By Muhammad Arsalan Mujaddidi   He was collecting plates while sweating. Suddenly the hotel owner gave a vile kind of abuse and asked to do another job. An old man sitting nearby saw all this and said, "Sir, you are a hotel owner. You look conscious, but you are small."   Poor child stay brave The hotel owner got angry when he heard this. "Baba, you came here to eat. If you have eaten, come here. This is a private matter of our hotel. This child is a work thief." The elders stood up and grabbed the arm of the ten-year-old boy and said, "Son, do your job from today." There is no need to work here where there is no respect. The child was watching in amazement when the hotel owner stepped forward. Sir who are you Be a stranger Neither the child knows you nor you the child. Then why so much sympathy? No intention of kidnapping or losing a child? Leaving the child, the elder said, "Look, brother, he has three plots and a buil...

بھلائی

 بھلائی از قلم محمد ارسلان مجددی وہ پسینہ صاف کرتے ہوئے پلیٹیں جمع کر رہا تھا۔ اچانک ہوٹل مالک نے ایک گھٹیا قسم کی گالی دی اور دوسرا کام کرنے کو کہا۔ قریب بیٹھے ایک بزرگ نے یہ سب دیکھا تو کہا جناب آپ ہوٹل مالک ہیں شکل و صورت سے باشعور بھی نظر آتے ہیں مگر آپ کم ظرف ہیں۔ ہوٹل مالک یہ سنتے ہی بھڑک اٹھا۔ "بابا آپ ادھر کھانا کھانے آئے تھے۔ کھانا کھا چکے ہیں تو یہاں سے تشریف لے جائیں۔ یہ ہمارے ہوٹل کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ بچہ کام چور ہے". بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس دس سالہ بچے کا بازو پکڑ کر کہا چلو بیٹا آج سے آپ اپنا کام کرنا۔ یہاں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے جہاں عزت ہی نہ ہو۔  بچہ یہ سب حیرانی سے دیکھ ہی رہا تھا کہ ہوٹل مالک آگے بڑھا۔ جناب آپ ہیں کون؟ اجنبی ہو۔ نہ بچہ آپ کو جانتا ہے نہ آپ بچے کو۔ پھر اتنی ہمدردی کیوں؟ کہیں بچے کو اغوا یا گم کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے؟ بزرگ نے بچے کا چھوڑتے ہوئے کہا دیکھو بھائی وہ سامنے میرے تین پلاٹ اور ایک بلڈنگ ہے۔ کافی عرصہ سے دوسرے علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ اب یہاں آگیا ہوں۔ اتنا تعارف کافی ہے۔ یہ کہتے ہوئے بزرگ بچے کو اپنے ساتھ لے گئے اور ایک دکان...