عید کے موقع پر کراچی سے ٹھٹہ کا سفر محمد ارسلان مجددی

 عید کے موقعے پر کراچی سے ٹھٹہ کا سفر  
محمد ارسلان مجددی

 

میں عام دنوں میں اکثر سندھ کے تاریخی شھر ٹھٹہ کا سفر کرتا رہتا ہوں میری رہائش کراچی میں ہے ـ 

عید الفطر کے موقع  پر آج بھی 5 مئی 2022 کی صبح کے پانچ بجے کراچی سے  میں نے ٹھٹہ کے لیے سفر کا آغاز کیا۔ قائدہ آباد سے ٹھٹہ تک تقریباً 90 کلومیٹر تک میں نے عوام کا رش دیکھا جو سیر و تفریح کی غرض سے اندرون سندھ کا سفر کر رہے تھے۔ کچھ لوگ اہل و عیال کے ساتھ تھے تو کچھ بغیر فیملی کے۔ خوشی ہوئی کہ لوگ بلا خوف و خطرہ خوشیاں منانے اندرون سندھ کا سفر کر رہے ہیں۔



 


کراچی میں لسانی نفرت پھیلائی جاتی ہے اس سب کو بھلا کر یہ سب لوگ سندھی بھائیوں کے درمیان خوشیاں مناتے ہیں۔ اسی خوشی کو دگنا کرنے کے لیے سندھی بھائی بھی پیش پیش تھے کہ مسافروں کے لئے ضرورت کی تمام دکانیں کھلی رکھیں جیسا کہ مکینک ، ٹائر پنکچر ، ہوٹل اور دوسری ضرورت کی دکانیں وغیرہ۔ 

صبح پانچ بجے اندھیرے میں کچھ لوگ گھگھر  پھاٹک سے گھارو تک اپنی گاڑیوں کو دھکا لگا رہے تھے تو کچھ لوگ ٹائر پنکچر لگوا رہے تھے تو کچھ سڑک کنارے چٹائی بچھا کر آرام کر رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر اتنا اندازہ ضرور ہوا کہ ضلع ٹھٹہ سے کراچی کے درمیانی راستے اور علاقے پر امن ہیں۔ 

کیونکہ لوگ خوشیاں منا رہے تھے۔ کہیں سے دیکھ کر یہ ہر گز محسوس نہیں ہوا کہ یہ سب انجان علاقے میں ہیں یا انہیں یہاں کوئی پریشانی محسوس ہو رہی ہے۔

امن قائم کرنے کے لیے پاکستان رینجرز ، سندھ پولیس اور ٹریفک پولیس کے اہلکار اپنے فرائض دل سے انجام دے رہے تھے۔ 

لیکن یہ سب خوشیاں دیکھنے کے بعد افسوس تب ہوا جب کچھ لوگوں نے لاپرواہی کی وجہ سے خود کو اور دوسروں کو مسائل میں مبتلا کیا۔

ایک حادثہ ٹھٹہ مکلی سے پہلے دیکھا کہ کوسٹر روڈ کے درمیان میں بنے فٹ پاتھ چڑھ کر بھیانک حادثے کا شکار ہوا۔ پھر تھوڑی دیر بعد کچھ موٹر سائیکل سوار لوفر گردی کرتے ہوئے مسافروں کو خطرے میں ڈال رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے  کچھ موٹر سائیکل سوار حادثے کا شکار ہوئے۔ 

ایک قابل افسوس بات تب دیکھی جب تین موٹر سائیکل سوار لڑکے خطرناک طریقے سے کرتب دیکھانے کی کوشش کر رہے تھے اچانک پولیس چوکی کے پاس گزرے تو پولیس اہلکاروں کو منہ چڑھایا اور ان کو چھیڑتے ہوئے گئے۔ یہ صبح کے 9 بج رہے تھے۔ دھوپ میں کھڑے یہ پولیس اہلکار صرف برداشت کرتے رہ گئے۔ 

اگر یہی پولیس اہلکار قانونی کاروائی کرتے تو یہ لڑکے کراچی پہنچ کر الزام لگاتے کہ ناجائز کاروائی کی گئی۔ 

قریب 9:30 بجے رینجرز چیک پوسٹ پر دن کی سفید روشنی میں ایک تیز رفتار کار فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اللہ پاک سب کو نقصان سے محفوظ فرمائیں ۔ سوال یہ ہے کہ عوام الناس اپنی ذمہ داری کیوں نہیں سمجھتی؟ صوبائی ، وفاقی یا بلدیاتی حکومت پر اکثر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ لسانیت اور قومیت کو بنیاد بنا کر اکثر کراچی اور سندھ کی عوام کو لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن کراچی اور سندھ کی عوام آپس بھائی بھائی جیسی الفت اور خلوص رکھتے ہیں۔ اگر یہی عوام الناس اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔ تفریح کے لیے شہر ٹھٹہ یا دوسرے مقامات پر جاتے ہوئے حفاظتی اقدامات خود بھی انجام دیں۔ صفائی کا خیال رکھیں تو عید جیسے دوسرے تہوار بھی تمام حادثات سے محفوظ بنائے جا سکتے ہیں۔

خوشی کے موقع پر امن کا پیغام دیں اور نوجوانوں میں شعور بیدار کریں کہ دوران تفریح اور سفر حفاظتی اقدامات و انتظامات انجام دیں تاکہ ذمہ دار شہری ثابت ہوں۔ 

خوشی ہوتی ہے جب کراچی اور اردگرد کے موجود اضلاع کی عوام بطور پاکستانی مل کر خوشیاں بانٹتے ہیں۔ سندھی، بلوچی، پنجابی ، سرائیکی، ہزارہ، ہنکو، کشمیری، پشتو اور اردو بولنے والے آپس میں تفریق نہیں کرتے۔ دعا ہے سندھ اور کراچی میں یہ امن برقرار رہے۔ آمین

پاکستان ذندہ باد


Comments

Popular posts from this blog

انصاف کا ترازو برابر از قلم محمد ارسلان مجددی

اجڑ گیا گھر

مجبور عوام از قلم محمد ارسلان مجددی