بچوں کو پرسکون ماحول کی فراہمی از محمد ارسلان مجددیؔ

 

بچوں کو پرسکون ماحول کی فراہمی

از قلم: محمد ارسلان مجددیؔ

آج کل آپ کچھ بچوں کا  مشاہدہ کریں تو وہ اپنی قابلیت  اور خواہش کا اظہار نہیں کرتے۔ اسی کی وجہ کم لوگ تلاش کرتے ہیں مگر یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ بچے ان کے مطابق کام کرے۔ بچے کی نیند میں کمی ،بھوک کا نہ لگنا اور منفی سوچ میں اضافہ  یہ تمام  چیزیں  بچے کی اندرونی صلاحیت کو مدہم کرتی ہیں۔ آپ کئی بچوں کو خوف کا شکار  پاتے ہیں یا   والدین کی  ہدایات کے خلاف مزاحمت کرتے دیکھا ہوگا۔  


غصہ  اور تنہائی بچے کو اپنے بڑوں  یا گھریلو ناچاکی وجہ سے  حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بچے کی یاداشت  پر گہرے اثرات مرتب کرتے
ہیں۔ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر                                                  (پی ٹی ایس ڈی) Post-Traumatic Stress Disorder  یہ ایک ایسی بیماری  ہے جو  بچوں کو خوفناک واقعات  کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا اکثر بچے رات کو ڈراؤنا خواب دیکھنے کی وجہ سے چیخ  مار کر  اٹھ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ہم بچپن میں بچے کو مختلف چیزوں کا تصور دے کر ڈراتے ہیں کہ سو جاؤ یا فلاں کام نہ کرو      ورنہ  فلاں چیز تمہیں کھا  جائے گی۔ 


ماہرین کا کہنا کہ بچوں کو خوفناک چیزوں سے اس حد تک دور رکھیں کہ وہ چیزیں ان کی سامنے بار بار نہ دہرائی جائیں۔  بعض اوقات  کچھ والدین آپس میں بار بار لڑتے ہیں ، مرد اپنی بیوی کو مارتا ہے تو بچہ خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کی نیند اس خوف سے کم ہو جاتی ہے کہ اگر میں سو گیا تو پتا نہیں میرا  والد میری والدہ کے ساتھ کیا کرے گا۔  اسی طرح بار بار کی سختی اور اذیت کی وجہ سے بچہ اپنی خواہش کا اظہار نہیں کرتا۔ مثلا اسے کوئی چیز ضرورت ہے تو   والد کے سخت لہجے   کی وجہ سے نہیں مانگتا ۔ اس طرح وہ بچہ  احساس کمتری کا شکار ہونے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ چیزوں سے جی چرانے لگتا ہے۔ کھانا کم کھاتا ہے کیونکہ اسے ڈانٹ  کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس طرح بھوک میں کمی واقع ہونے لگتی ہے جو بچے کو جسمانی  طور پر کمزور کرتی ہے۔  جو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا اس کی دماغی یا اعصابی قوت مدافعت بھی محدود ہوگی۔ لہذا ایسے بچے  سے اعلی کارکردگی کی امید رکھنا  ہماری غلطی ہے۔ اس کے متضاد میں آپ ان بچوں کا جائزہ لیں  جن کی خواہش کی حوصلہ افزائی کی جاتی  اور ان کو سیکھایا جاتا ہے کونسا کام کیسے انجام دینا ہے تو وہ بچے بلوغت میں اپنے اندر جلد  خود اعتمادی بحال کرنے میں کامیاب رہتے  ہیں۔ 


کبھی  آپ شہر میں کسی کھیل کے میدان میں دیکھیں والدین اپنے بچے کے ساتھ بچہ  بن کر کرکٹ یا فٹ بال کھیلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف دیہات میں والدین بچے کے ہاتھ میں طاقت ور جانور کی رسی تھما دیتے ہیں کہ آپ اس کے مالک ہو  اس
 کو لے کر چلو اور  وہ بچہ بغیر کسی خوف کے اس جانور یعنی گھوڑا ، بھینس یا گائے وغیرہ کو گھاس کھلاتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں  والد کے ساتھ کرکٹ کھیلتے بچے  اور باپ کا بچے پر بھروسہ کرکے اس کے ہاتھ جانور کو قابو کرنے کا بھروسہ خود بچے کو کس قدر مستقبل کے لیے پختہ دماغ مہیا کر رہا ہے۔

بچوں کو ذہنی سکون دینے کے لیے ان  کے سامنے گھریلو یا سماجی لڑائی جھگڑا  نہ کریں۔  کوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں  بچے کی ذہنی کیفیت تبدیل کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں۔ ورزش اور  کھانا وقت پر دیں۔حادثات والی جگہ پر دوبارہ  نہ جائیں اگر  مجبورا جانا بھی پڑے تو ماضی کا قصہ نہ سنائیں۔  بچے کو ڈانٹ یا مار پیٹ کی بجائے  کوئی مثبت طریقہ اختیار کریں۔ مثلا اگر بچے کے ہاتھ شیشے کا گلاس گر کا ٹوٹ گیا ہے تو بجائے اسے مارنے یا ڈانٹنے  کے اسے گلاس کی احتیاط  کا طریقہ سمجھائیں بلکہ ممکن ہو تو اس طریقہ  کی عملی مشق بھی کرائیں تاکہ بچہ عملی طور پر سیکھ سکے۔ بچے ہماری قوم و ملک کا  اہم اثاثہ ہیں۔ لہذا انہیں ذہنی  سکون فراہم کرنا ہماری اجتماعی و انفرادی ذمہ داری  ہے۔ تاکہ پختہ دماغ کے ساتھ یہ بچے جوان ہو کر ملک پاکستان کی ترقی کی وجہ بن سکیں۔

 

Comments

Popular posts from this blog

انصاف کا ترازو برابر از قلم محمد ارسلان مجددی

اجڑ گیا گھر

مجبور عوام از قلم محمد ارسلان مجددی