"دین سے دوری ،نتیجہ ذہنی بےسکونی" از قلم: محمد ارسلان مجددی

 

 "دین سے دوری ،نتیجہ ذہنی بےسکونی"

از قلم: محمد ارسلان مجددی

 Motivationاردو زبان میں ایک لفظ حوصلہ افزائی  استعمال ہوتا ہے جسے انگریزی زبان میں ہم

کہتے ہیں۔ ہمارے اردگرد تقریبا 70 فیصد افراد ذہنی طور پر پریشان نظر آتے ہیں۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ البتہ انسان کے بدلتے رویے اور وقت کے تقاضوں سے انسان لڑتے لڑتے  تھک چکا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق 10 میں سے 5 سے 7 فیصد افراد  افسردگی کا شکار رہتے ہیں۔

"جرمنی کے ایک ڈاکٹر ولہیم وانڈٹ ، اور ماہر نفسیات دنیا کی پہلی تجرباتی نفسیات لیب بنانے کی ذمہ دار تھے۔ یہ لیب 1879 میں جرمنی کی لیپزگ یونیورسٹی میں قائم کی گئی تھی۔ تجرباتی نفسیات کے مطالعہ کے لئے وقف ایک تعلیمی لیبارٹری تشکیل دے کر ، وانڈٹ نے باضابطہ طور پر فلسفہ اور حیاتیات کے ذیلی نظم و ضبط سے نفسیات کو ایک منفرد سائنسی نظم و ضبط میں لے لیا"۔

)Boring EG. A History of Experimental Psychology. 2nd Ed. Englewood-Cliffs: Prentice Hall; 1960(   

درج بالا پیراگراف سے ہم اتنا سمجھ پاتے ہیں کہ  19ویں صدی میں  انسان کو ذہنی طور پر مضبوط کرنے کےلیے باقاعدہ طور پر قدم اٹھا یا گیا۔ لیکن اس سے کئی صدیاں قبل "عرب" کی سرزمین پر   سرور کونین نبی پاک ﷺ نے انسان کو باشعور کرنے کے لیے سب سے پہلے اخلاق کو درست کرنے پر زور دیا۔  زبان میں مٹھاس  اور دل پاک رکھنے کا بھی حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی آپس میں رویے درست کرنے اور رنج نہ رکھنے کا بھی حکم فرمایا۔  جس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ خواتین اور مرد  ذہنی اور عملی طور پر غلامی سے نجات  پاکر خوشگوار زندگی کی بہاریں دیکھنے کے قابل ہوئے۔

ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے ہمیں اللہ پاک نے اپنی اور اپنے پیارے حبیبﷺ کی فرمانبرداری کا حکم دیا۔ اللہ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

"آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر وہ پھر گئے تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔" (سورۂ آل عمران کی آیت ۳۲ )



درج بالا آیت کا مفہوم ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ دین اسلام کی پیروی کرکے قلب سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ آج  آپ مدراس میں پڑھتی بیٹیوں  کو پرسکون دیکھتے ہیں۔ راہ دین پر گامزن مرد حضرات کو راحت میں اور چہرے پر نور دیکھتے ہیں۔  احادیث اور قرآن میں تمام مسائل کو کھول کھول کر بیان کر دیا گیا۔ پھر صحابہ کرام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے عملی طور پر دنیاوی مسائل کو دین مطابق حل کر کے دیکھایا۔ ہم اللہ سے دور اس لیے ہیں کہ اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے سے غافل ہیں۔ ہم غیر اسلامی تہذیب سے اتنا متاثر ہو رہے ہیں کہ  ہم اپنا اٹھنا ،بیٹھنا ، کھانا، پینا  غرض تمام اعمال ان جیسے اپنا رہے ہیں۔

آخر ہم اسلامی فلاسفر سے واقف کیوں نہیں ہیں؟     "امام احمد غزالی اور محمد غزالی"  دونوں غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد کی وفات کے بعد مدرسہ میں اسلامی تعلیم اس طرح حاصل کی کہ زندگی بھر عمل پیرا رہے۔ ایک بھائی ولی اللہ ٹھہرے تو دوسرے بھائی  وقت  کےاعلی مدرس۔ آج بھی امام غزالی  کا تعلیمی فلسفہ پڑھایا جاتا ہے۔ جس میں انہوں نے جسمانی کھیل اور خواتین کی تعلیم پر بھی زور دیا تھا۔ جس سے آج کا ترقی یافتہ معاشرہ اتفاق کرتا ہے۔   میں یہ نہیں کہتا کہ آپ مغربی تہذیب سے کنارہ کریں وہ آپ کا ذاتی انتخاب ہے لیکن اتنی التجا ضرور ہے کہ دل و دماغ کے لیے سکون گناہوں کی دنیا میں تلاش نہ کریں۔



دین کے مطابق عورت عمل کرے تو وہ "رابعہ بصری" بن جاتی ہے۔ جس کی پاکیزگی  اور مومن زندگی پر نہ جانے کتنی زبانوں میں کتابیں لکھی گئیں۔ اس دور میں علم اور روزگار دونوں حاصل کرنا مشکل تھا۔  آج کا نوجوان گھر بیٹھے پڑوسی ملک کے بارے میں جان لیتا ہے۔  یعنی اس قدر سہولت میسر ہونے کے باوجود ذہنی سکون میسر ہیں۔ وجہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی طرف قدم نہ بڑھانا۔

Comments

Popular posts from this blog

انصاف کا ترازو برابر از قلم محمد ارسلان مجددی

اجڑ گیا گھر

مجبور عوام از قلم محمد ارسلان مجددی