ادب اور فلسفہ کا فقدان از محمد ارسلان مجددیؔ
ادب اور فلسفہ کا فقدان
از قلم: محمد ارسلان مجددیؔ
ادب اور فلسفہ
دونوں منفرد اور گہرے خیالات اور شعور مہیا کرنے والے خیالات ہیں۔ عام
زندگی میں کوئی کسی کو دلائل یا تاریخی
شواہد کے ساتھ کوئی بات سمجھانے کی
کوشش کرے تو اسے لوگ فلاسفر ہونے کا طعنہ
دے کر خاموش کروا دیتے ہیں۔ کیونکہ عام شخص بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ فلسفی یا فلاسفر ہونا عام بات نہیں ۔ ادیب جو
ادب کو سمجھتا ہے اور ادب کو ہر پیمانے سے ماپ کر
اس کی گہرائی سے ہر عام فرد کو
آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ادب
اور فلسفہ میں ایک بات مشترک پائی جاتی
ہے۔ دونوں میں گہرائی پائی جاتی ہے۔ اور
تمام تناظر میں بات کو سمجھا جاتا ہے۔ مثلا ایک
اردو ادب کا شاعر شعر یا نظم لکھنے سے پہلے اپنی سو چ پر غور و
فکر کرکے
لغت میں الفاظ پر غور و فکر کرتا اور مشاہدہ کرتا ہے ۔ پھر الفاظ کا بہتر چناؤ کرکے اپنے شعر کا حصہ بناتا ہے۔ اسی طرح فلسفی بھی اپنی سوچ کو گہرائی سے مختلف تناظر میں سوچتا ہے اور
دلائل و منطق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ دنیا میں
پہلے فلسفی کا اعزاز"تھے لیز آف مائیلیٹس" کو حاصل ہے۔
جو بحیر روم کے ساحل کے یونا نی باشندے تھے۔ یہ تقریبا 550 قبل
از مسیح میں پیدا ہوئے ۔ ان کی خدمات سے کئی مؤرخین اختلاف کرتے ہیں۔ کیونکہ
ان کی تصانیف کا وجود نہیں ملتا۔ بعض مؤرخین
کے مطابق انہوں نے کوئی کتاب تحریر نہیں کی تھی۔
ان کے بعد دنیا عظیم فلسفی "سقراط" سے واقف ہوئی جو تقریبا 470 قبل از مسیح " یونان" میں پیدا ہوئے۔
یہ واحد فلاسفر ہیں جنہوں نے غور و
فکر اور بحث کا نیا طریقہ متعارف کرایا۔ انہوں نے آموزش کے لیے " طریقہ تدریس " بھی دیا جسے ہم سقراطی
طریقہ کہتے ہیں۔ ان کی تعلیمات اور فلسفہ پر ان کے شاگرد
" افلاطون" نے کام شروع کیا۔ اپنی
گہری سوچ اور فکر سے " تعلیمی
نظام " متعارف کرایا جو ان کے فلسفہ سے اخذ کیا گیا تھا۔ آج بھی دنیا
ان سے اتفاق کرتی ہے۔
یوں ہمیں سمجھ آتی ہے کہ انسان کو شعور و تمیز کی فراہمی کئی صدیوں کی
جاری ہے۔ یوں انسان نے کئی اہم امور میں فرق کرنا سیکھا۔ جیسے
روح اور جسم میں فرق کرنا اور روح
کو پاک کرنا۔ انسانی جسم سے درست سمت کے
کام لینا، انسان کو سچ و جھوٹ میں فرق
کرکے انصاف اور عدل قائم کرنا۔
غرض شعبہ زندگی کے ہر مرحلے کی فلسفہ کے ذریعے تعلیم دی گئی۔
آج دور حاضر میں
ہم اسلامی فلاسفر اور دنیا بھر کے تمام
فلاسفر کی تصانیف پڑھتے ہیں جہاں سے ادب
اخذ کیا جاتا ہے۔ ایک ہی فلسفہ کو کئی
نام دینے کی وجہ سے اسے مختلف تناظر میں
دیکھا گیا۔ جیسے کہ " فلسفہ
وجودیت" جسے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
" فلسفہ خودی" کے نام سے لکھتے ہیں۔
ان دونوں کا مرکز انسان ہی ہے۔
لیکن فلسفہ خودی انسان کو انفرادی حیثیت
میں اپنی ذات کو سمجھ کر خدا کی طرف رجوع
کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جبکہ فلسفہ وجودیت
صرف انسانی وجود کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
قرآن پاک میں بھی انسانی وجود کی اہمیت
واضح لکھی گئی ہے۔ لیکن یہ صرف اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ یعنی جو غور فکر کرتے ہوں۔ قرآن پاک کا
ترجمہ تو ہر فرد پڑھ لیتا ہے لیکن اس کی
تفسیر کرنا اور سمجھنا ہر شخص کے بس کی
بات نہیں۔ اس لیے اسے سمجھنے کے لیے ہمیں
کئی علوم پر پہلے عبور حاصل کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح ادب پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ہمیں مختلف علوم غور سے پڑھنے کی ضرورت
ہے۔ آج کےنوجوانوں میں کثیر تعداد پائی جاتی ہے جو فلسفہ اور ادب
کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ آج کل نوجوان
معاشی ضرورت میں اس طرح الجھ چکا
ہے کہ اسے اسکول یا کالج بھیجتے وقت والدین
یہ کہتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی یا آفیسر بن جاؤ گے۔ جبکہ ایسے والدین
کم دیکھنے کو ملتے ہیں جو خالص علم اور عمل کو تقویت دیتے ہوں۔ فلسفہ اور ادب کو
سمجھنے کے لیے ہمیں دولت کی خواہش دل سے نکالنی ہوگی۔ تب ہی ہماری خاص سوچ غور و فکر میں مبذول ہو جائے گی۔
جامعہ کراچی کے "شعبہ فلسفی"
کو دیکھ کر کئی بار حیرت ہوئی کہ یہاں فلسفہ کی
تعلیم دینے کے لیے معلمین اور شعبہ تو
موجود ہے مگر فلسفہ کی طلب رکھنے والے طلبہ و طالبات کا عدم رجحان ہے۔
ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ
داری ہے کہ ہم نئی نسل میں ادب اور فلسفہ کا
ذوق و شوق پیدا کریں۔
Comments
Post a Comment
Comment for more information or send me email on marsalan484@gmail.com . Thanks