تبدیلی اور ہماری ذمہ داری از قلم: محمد ارسلان مجددؔی

 

تبدیلی اور ہماری ذمہ داری

از قلم: محمد ارسلان مجددؔی

 

زندگی کے عجیب رنگ ہیں۔ جیسا تصور کرتے ہیں ویسا ہی پاتے ہیں۔ چار اپریل کی صبح جب سڑک پر پہنچا تو دیکھا کچھ بچے گزشتہ دن لگنے والی بازار کے کچرے سے رزق تلاش کر رہے تھے۔ ان کی کوشش کامیاب تھی۔ سبزی اور پھل کے کچرے میں سے چند اشیاء انہوں نے جمع کر  رکھی تھیں۔  یہ منظر دیکھ کر مسجد سے نکلنے والے بزرگ افسوس کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف وہ بچے بھاگ بھاگ ایک جگہ سے دوسری جگہ  کچھ تلاش کرتے کہ کہیں دوسرا بچہ  مجھ سے پہلے ڈھونڈ نہ لے۔



یہ منظر دیکھ کر ایک بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ اللہ پاک کتنے رحیم  و کریم ہیں۔ وہ اپنی رحمت سے پیدا کردہ رزق کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔  کھلے میدان میں مختلف ایام کے دوران لگنے والے بچت بازاروں میں شام کو جب سامان سمیٹا جاتا ہے تو کچھ نہ کچھ  گر جاتا ہے۔ جس پر اللہ پاک نے مفلس لوگوں کا نصیب لکھا ہوتا ہے۔  جس کچرے کی بدبو سے ہم دور رہنا پسند کرتے ہیں ۔ اسی میں سے وہ غریب مختلف اشیاء تلاش کرکے  اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ سامان سمیٹنے والا احتیاط نہیں کرتا۔ یا کوئی  صاحب استطاعت ان کی مدد نہیں کرتا۔

سوال یہ ہے کہ دہائیوں سے ایک ہی  عمل دیکھنے کو ملا ،شہر کراچی میں  کوڑا کرکٹ میں سے رزق تلاش کرنے والے افراد  اسی کچرے میں سے کھانے کی چیزیں نکال کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ ندامت محسوس ہوتی ہے کہ ہم اتنے پڑھے لکھے اور مہذب لوگ اپنا  رزق اس طرح سے گراتے ہیں کہ  وہ لوگ اس میں سے نکال کر کھانے پر مجبور ہیں۔  کیا یہ ہماری ناشکری نہیں ہے؟ یا ہمارے شعور میں کمی کا باعث نہیں ہے؟



یہ کچرا چننے والوں کے بارے عام خیال کیا جاتا ہے کہ یہ افغانی یا پٹھان ہیں۔ لیکن آپ مشاہد ہ کی غرض سے غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا  اب ہر زبان بولنے والا اس میں شامل ہو رہا ہے۔  مختصر وجہ یہ سمجھ آتی ہے  گزشتہ دہائیوں میں ہم نے  " شرح خواندگی"  بڑھانے کے ساتھ  بہت سارے اہم اقدامات کو نظر انداز کیا ہے۔  غربت کی وجہ سے  کئی خاندان کے بچے تعلیم سے محرومی کے بعد گلی محلے میں کچرے اور ملبے میں سے کچھ نہ کچھ تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ کافی خواری کے بعد یہ پرانا پلاسٹک، لوہا، سوکھی روٹی  یا گتہ وغیرہ جمع کرکے اسے کباڑ پر فروخت کرکے گھر لے جاتے ہیں۔ اس طرح اہل خانہ بھی اس سرگرمی کو اچھا اور روزگار کا زریعہ سمجھنے لگتے ہیں۔  یوں  یہ غرباء اپنی صحت اور بچوں کا حسین بچپن  رزق کی تلاش کی نظر کر دیتے ہیں۔

حکومت وقت کو  ذمہ دار ٹھہرانے سے پہلے ہمیں اپنی سماجی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔  بطور ذمہ دار شہری ہم ان مفلس گھرانوں  کے لیے عملا کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ کیا ہم عدم اسکول  کی سہولت یا مہنگے اسکول   کے متبادل میں خود کو پیش نہیں کرسکتے؟  کیا ہم اپنے ذاتی اخراجات  پر قابو پا کر  ان ننھے بچوں  کو کچرے  میں ہاتھ ڈالنے سے روک سکتے ہیں؟

ہم سماج میں تبدیلی تو چاہتے ہیں مگر حکومت وقت کے ذریعے۔ مگر کیوں ؟ اگر تمام مثبت تبدیلیاں سرکار نے ہی کرنی ہیں تو ہم اپنی ذمہ داری کب ادا کریں گے۔  بازاروں میں بزرگ  اور خواتین بطور ملازم کئی ناگزیر صورتحال کا روزانہ شکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے یہ کچرا اٹھانے والے بھی روازنہ بےعزت ہوتے ہیں۔ مشترکہ بات یہ ہے کہ دونوں کو سماج کا طاقتور فرد ہی تکلیف دے رہا ہے۔تبدیلی اور شعور   کی خواہش  مکمل تب ہوگی جب ہم تمام  اعتبار سے ذمہ داریاں مکمل کریں گے۔

Comments

Post a Comment

Comment for more information or send me email on marsalan484@gmail.com . Thanks

Popular posts from this blog

انصاف کا ترازو برابر از قلم محمد ارسلان مجددی

اجڑ گیا گھر

مجبور عوام از قلم محمد ارسلان مجددی