درد ناک زندگی از قلم: محمد ارسلان مجددی
درد ناک زندگی
از قلم: محمد ارسلان مجددی
زندگی کے راستوں پر انسان کو کن کن واقعات اور مسائل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ شاید کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ انسان کی زندگی اس قدر مشکل اور دردناک ہوچکی ہے کہ ہر شخص کی کہانی سن کر آپ اس کو مظلوم تصور کرتے ہیں۔
غریب ہو یا امیر وہ اپنی اولاد کو بہترین آسائش فراہم کرنے کی مکمل کوشش کرتا ہے۔ لیکن دنیا کی فریبی اور تنگ دستی انہی والدین کو مجبور کر دیتی ہیں کہ اپنی اولاد کو موت کی طرف جھونک دیں۔
کل پاکستان کے کچھ نیوز چینل میں یہ خبر شائع ہوئی کہ صوبہ پنجاب کے ایک فرد نے اپنے چار بچوں کو نہر میں پھینک کر موت کے حوالے کردیا۔ دو دن بعد وہ شخص گرفتار بھی ہو گیا۔ اس جرم کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ کچھ ذرائع نے بتایا کہ عید کے کپڑے لینے تھے غربت کی وجہ سے نہ لیے جا سکے۔ کچھ ذرائع نے بتایا کہ نہیں گھریلو جھگڑے کی وجہ سے وہ شخص ذہنی طور پر پریشان تھا۔ حقیقت کچھ بھی ہو لیکن واقعہ دردناک تھا اس واقعہ کو سن کر روئے۔ والدین کے بہتر مستقبل اور عدل والا معاملہ ہو اس غرض سے دعا بھی کی۔
آپ پاکستان کی سالانہ خبروں کا جائزہ لیں تو ڈھیروں خبریں ایسی ملیں گی کہ والدین نے اپنے بچوں کو قتل کر دیا۔ زیادہ تو تناسب صرف اس بات کا ملتا ہے کہ والدین نے آپسی جھگڑے یا مفلسی کے باعث معصوم بچوں کی زندگی مختصر کر دی۔ بروز قیامت کیا فیصلہ ہوگا یہ اللہ کی عدالت جانتی ہے۔ لیکن اس دنیا کی جو عدالت ہے وہ بھی ان معصوم بچوں یا والدین کو انصاف دینے سے قاصر ہے۔ جدید دور میں ہر طرح کی سہولت موجود ہے، واضح اور حقائق پر مبنی تحقیقات ہوتی ہیں۔ ہزاروں انجیوز اور فلاحی ادارے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن بے سود، لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں۔ خوراک، آسانیاں، وسائل اور زندگی کا آسان ہونا صرف دعویٰ ہو کر رہ گیا ہے۔
آخر کون لائے گا مثبت تبدیلی، کون اپنے ارادوں کو حقیقت میں تبدیل کرے گا؟
ہر حکومت، ہر افسر اور ہر رہنماء وسائل کی فراہمی اور عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی مکمل یقین دہانی کراتے ہیں۔ کچھ وقت کے لئے مان لیا جائے کہ وہ اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی والدین بچوں کو دفنانے، نہر میں پھینکنے، گلہ دبانے پر مجبور ہیں۔ کہیں لباس کی کمی، کہیں خوراک کی کمی، تو کہیں عزت نفس کا تحفظ نہ ہونا، انہیں اس حد تک مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اپنی جگر کے گوشوں کو اپنے ہی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اللہ کی طرف روانہ کرکے خود کو میں گنہگار بنا دیتے ہیں۔
آخر کب فلاحی ادارے، حکومتی ادارے یا عوام بذات خود ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کمزور ذہن یا مفلس لوگوں کی ذہن سازی کریں گے۔ تاکہ وہ مشکل حالات میں خود کو ثابت قدم، صابر انسان اور بہادر پاکستانی بنائے رکھیں۔
اللہ اکبر!
ReplyDeleteاللہ آسانی فرمائے سب کے لیے
ہمارے گناہ معاف فرمائے
Umda Tehreer
ReplyDeleteبہت ہی دردناک واقع ہے۔ معاشرے کے
ReplyDeleteسیاہ پہلو کو واضح کیا ہے۔ دعا مختصراً یہ کہ اللہ تعالٰی ہمیں مکمل طور پر دین اسلام کو سمجھنے کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔