صاف سماج
صاف سماج
از قلم: محمد ارسلان مجددی
صبح کے پونے آٹھ بج رہے تھے وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے سکول چھوڑنے جا رہے تھے۔ اس بزرگ کے ہاتھ میں میں کچرے کی تھیلی تھی جو انہوں نے گلی کے کونے پر پڑے ایک ملبے پر رکھی۔ اتنی میں نے انہیں آواز دی بابا جی آپ یہاں ایک تھیلی رکھے ہیں کچھ لوگ اس ایک تھیلی کی آڑ میں بہت سارا کچرا پھینک دیں گے۔ جواباً انہوں نے شفقت سے کہا، ہاں بھائی میں بیٹی کو سکول چھوڑنے کے بعد یہ تھیلی یہاں سے اٹھا لوں گا اور کچرا کوڑی پھینک آؤنگا۔ یہ سن کر میں خاموش ہوگیا اور انتظار کرنے لگا۔ قریب دس منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ بزرگ آئے اور کچرے کی تھیلی اٹھا کر کچرا کوڑی کی طرف چل پڑے۔ ان کی یہ دیانت داری دیکھ کر میں حیران اور خوش رہ گیا۔ میں اس سوچ میں تھا کہ اب بھی میرے ملک میں دیانت دار اور محب وطن موجود ہیں۔ جو اپنے محلے اور معاشرے کو صاف رکھنا چاہتے ہیں۔
ورنہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کچرے کو اٹھا کر چلنا اور یہ کچرا دان میں پھینکنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ دوسری صورت میں وہ یہ کچرا اپنی چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پھینکواتے ہیں یا پھر کوئی کوئی جمعدار اٹھا کر لے جاتا ہے۔
مجھے ایک بات تو سمجھ میں آگئی تھی کہ ایسے لوگ اپنے گھر اور محلے کے لیے باعث رحمت ہیں۔ جو صبح شام بروقت اپنے ہاتھوں سے کچرا پھینک آتے ہیں۔ محلے یا گھر میں میں مزید گندگی یا جراثیم پھیلنے سے روکتے ہیں۔
یہ سماج نیک لوگوں کی سیرت کی بدولت ترقی کی راہ پر ورنہ ہمارے منفی ذہن تو ہر چیز کھوکھلا کر رہے ہیں۔ میری دعا ہے پیارا پاکستان گندگی اور دشمن سے پاک رہے۔ آمین
آمین
ReplyDelete