اخلاق سب کا حق از قلم: محمد ارسلان مجددی
اخلاق سب کا حق
از قلم : محمد ارسلان مجددؔی
اکثر ہم یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ بیس یا پچیس سال کی عمر کے بعد کئی
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سخت ذہن کے مالک بن جاتے ہیں۔ تنہا رہنا، کم بولنا، دوست
نہ بنانا،دوسروں سے اپنی بات کا اظہار نہ
کرنا اور اپنی خواہشات کو محدود سے محدود کر دینا یہ ان کی عادات میں شامل ہو جاتا
ہے۔ کبھی وجہ جاننے کی کوشش کریں تو سب کی ملتی جلتی کہانی نظر آتی ہے ۔یہ جوان لڑکے یا لڑکیاں جو ایک وقت میں بہت معاون، ہنس مکھ ،
باتونی اور شرارتی ہوتے ہیں۔ گھریلو سخت
رویے، ہر وقت کی تنقید، طنز اور طعنے ان کے دل و دماغ کو کمزور کر دیتے ہیں۔ احساس کمتری کسی بھی بچے کو
پیدائشی طور پر فطرت میں نہیں ملتی مگر جب ہم بار بار کسی بچے کو اس کے خواہشات سے
روک رہے ہوتے ہیں، خواہ وہ خواہشات اس قدرتی اور منفرد صلاحیت کو اجاگر کرنےمیں مدد بھی فراہم کر رہی ہو۔ ہم یہ
سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جسے ہم احساس
کمتری کی طرف یا محدود سے محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کل کو یہی بیٹا یا بیٹی
والدین، خاندان، قوم اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ کئی بیٹیاں جو اسکول یا کالج
کے زمانے کئی تقریبات کے دوران ہونے مقابوں میں حصہ لے کر اپنی منفرد صلاحیت کے
جوہر دیکھاتے ہیں مگر اسکول یا کالج سے فارغ ہونے کے بعد ہم بیٹی کو گھر میں
باورچی خانے اوربیٹے کو ملازمت میں مصروف کرکے اس کی صلاحیت اور خواہشات کو نامکمل
رہنے کی مہر لگا دیتے ہیں۔ کبھی توجہ سے سوچیں جو بیٹا یا بیٹی جو زندگی میں بہتر
سے بہترین کی کوشش کرتے ہوئے آنکھوں میں خواب سجا لے اور آپ اسے ایک دم اسے محصور
کر دیں تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ پابندی اچھی بات
ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ پابندی کی ایک حد ہونی چاہیے۔ مثلا ایک بچہ ایک ماہ تک گھر میں تیار شدہ
کھانے کھاتا ہے اور ایک ماہ بعد وہ کوئی منفرد کھانے کی خواہش ظاہر کرے تو اس میں
کوئی برائی تو نہیں ہے، مگر ہمارے ہاں اکثر بچوں شدید ڈانٹ پڑتی ہے۔ اسے والدین یا
گھر کے بڑے طعنہ دیتے ہیں کہ آپ کے لیے فلاں فلاں سہولت کا انتظام کر رکھا ہے کیا
وہ کم ہے۔ مختصر اتنا کہ ہم میں سے بہت کم
لوگ شعور کو اپناتے ہوئے ماضی کی روایتی عادات کو ترک کرتے ہیں۔بچوں کو ذہنی طور
خوشی دینے کے لیے ان کو پیار بھرے القاب سے پکارتے ہیں تاکہ بچہ خود کو معزز محسوس
کرے۔ دنیاوی، دینی اور سماج سے ملنے والی تعلیم ہمیں بار بار اخلاق کا درس دیتی
ہے۔ یہ اخلاق صرف گھر سے باہر کے لوگوں کے ساتھ نہیں اپنانا بلکہ آپ کے گھر کے
موجود کا بھی حق ہے کہ آپ انہیں اخلاق و محبت دیں۔ آپ جس قدر اپنے بچوں کی مثبت
خواہشات کو ترجیح دیں اتنا ہی ان کے دلوں میں آپ کے لیے عزت و احترام رہے گا، ساتھ
ہی ساتھ وہ ذہنی طور پر پختہ ہونگے، سماج
میں اپنی صلاحیت سے خود کو ریاست کو فایدہ پہنچائیں گے۔
Comments
Post a Comment
Comment for more information or send me email on marsalan484@gmail.com . Thanks