مضموم کلیجہ ازقلم: محمد ارسلان مجددی
مضموم کلیجہ
ازقلم:
محمد ارسلان مجددی
صبح کی
بارش کے بعد پرندے درختوں پر بیٹھے شور مچا رہے تھے۔ زمین تیز بارش کے باعث انتہائی
گیلی ہو چکی تھی۔ آس پاس کے کھیتوں سے اٹھتی خوشبو اور ہلکی ہلکی ہوا نے موسم
سہانا کر دیا تھا۔
12 سالہ شمائل اس موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھر رکنا
چاہتی تھی، مگر ماں نے سختی کی کہ نہیں
اسکول جا کر وہاں اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے کھیلنا اور پڑھنا بھی۔۔۔
اسکول پہنچ
کر شمائل کو معلوم ہوا کہ اب تک کوئی نہیں پہنچا مگر یہاں ایک بزرگ مالی پودوں کی
دیکھ بھال کر رہے تھے جنہوں نے قریب آ کر شمائل کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور
پھر چھاؤں میں بیٹھنے کی تاکید کی اور پودوں کی صفائی میں مصروف ہو گئے۔
موسم کی
خوشگواری نے شمائل کی آنکھوں میں نیند بھر دی۔ کلاس کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے وہ
باقی بچوں اور اپنی ٹیچر کا انتظار کرنے لگی۔
مگر اسے معلوم
نہیں تھا دور دراز گاؤں کے راستے بارش کے پانی سے خراب ہونے کی وجہ سے کوئی نہیں آ
رہا۔ اسے نیند کے جھونکے آئے اور سو گئی۔
قریب 10
منٹ بعد بزرگ مالی شمائل کے قریب آئے اور
اپنے سر سے دستار اتار کر شمائل کو ڈھانپ دیا تاکہ ٹھنڈ محسوس نہ ہو۔ اتنے میں
اسکول مرکزی دروازے کا کر دیکھا تو کمہار اپنی گدھا گاڑی پر مٹی کے برتن رکھ کر
شمائل کی بستی کی طرف جا رہا ہے۔ بزرگ مالی نے کمہار کو متوجہ کیا "ٹھہرو!
بھائی کمہار میرا ایک پیغام سامنے والی باتیں کے علیم بھائی کو دے دینا۔ اسے کہنا
آج اسکول کوئی نہیں آیا۔ اپنی بیٹی شمائل کو واپس لے جائیں"۔
ایک گھنٹے
بعد علیم اسکول پہنچا تو شمائل گہری نیند میں ہے لیکن بزرگ مالی شمائل کے قریب بیٹھ
کر شفقت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ علیم اچانک شمائل کو نیند میں دیکھ کر ڈر گیا
کہ کہیں میری بیٹی کو کچھ ہوا تو نہیں ۔ علیم نے بزرگ مالی سے دعا و سلام کے بعد
شمائل کی خیریت پوچھی بزرگ مالی نے "بیٹا علیم بچی معصوم ہے آج کا دن تو موسم
کے سہانے منظر اسے لطف اندوز ہونے دیتے۔ دیکھو کوئی بھی نہیں آیا۔ بچی نیند میں آپ
اسے گھر لے جائیں۔"
علیم نے
بزرگ مالی کی فکر مندی دیکھی اور آنکھیں نم ہو گئیں۔
علیم نے
بلا جھجھک پوچھا لیا " مالی بابا کیا آپ کے بھی پوتے اور پوتیاں ہیں؟"
بزرگ مالی
نے جواباً بتایا" علیم بیٹا! تلخ ماضی ہے۔ اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا۔ وقت
نے ایسی کروٹ لی کہ پہلے والدہ دنیا سے رخصت ہوئیں پھر چھوٹا بھائی جو نوجوان تھا،
دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال کے قلیل عرصے میں ہمارے گھر سے چھ افراد چلے گئے۔ میرے
دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ان کو دیکھ کر خوشیوں کو امید جگا لی تھی۔ مگر جوانی میں
انہوں نے قدم رکھا تو ایک وبائی بیماری نے میرے گھر کو ایسا گھیرا کہ سب ایک ایک
کرکے سب خالق حقیقی سے جا ملے۔ اب شمائل جیسے معصوم بچوں سے محبت کرتا ہوں۔ ان سے
خوشی محسوس ہوتی ہے۔ بوڑھاپے میں ہوں عزرائیل کب اللہ پاک کا پیغام لائے اور روح
پرواز کر جائے کچھ خبر نہیں ۔ "
علیم یہ سب سن کر افسردہ ہوا۔ بزرگ مالی کا ہاتھ تھاما اور کہا " بابا آئیں... میرے گھر چلیں ہمارے ساتھ بھی خوشیاں بانٹیں۔ ہم دل سے آپ کی قدر کریں گے"۔ اتنے میں شمائل نیند سے جاگ گئی۔ علیم نے شمائل سے کہا شمائل " بیٹا آج سے مالی بابا آپ کے دادا ابو ہیں. آپ ہر روز پوچھتی تھی ناں کہ دادا ابو کہاں ہیں اور آپ دادا ابو کو تاروں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتی تھی"۔ اب بزرگ مالی کے رخسار خوشی سے روشن تھے۔ کچھ لمحے بعد علیم شمائل کو کندھے پر بیٹھائے کھیتوں کی پگڈنڈی پر جا رہا تھا اور بزرگ مالی اس کے ساتھ خوش گپیاں کرتے جا رہے تھے۔ ختم شد
Comments
Post a Comment
Comment for more information or send me email on marsalan484@gmail.com . Thanks