Posts

 یومِ اطفال: بچوں کے حقوق اور مستقبل کی تعمیر کا دن محمد ارسلان مجددی ہر سال 20 نومبر کو دنیا بھر میں یومِ اطفال منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بچوں کے حقوق کا تحفظ، ان کی فلاح و بہبود، اور بہتر مستقبل کے لیے شعور بیدار کرنا ہے۔ 20 نومبر کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ 1959ء میں اقوام متحدہ نے "بچوں کے حقوق کا اعلامیہ" اور 1989ء میں "بچوں کے حقوق کے کنونشن" کی منظوری دی۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر کے بچوں کو محفوظ اور خوشحال زندگی فراہم کرنے کے لیے عزم کی تجدید ہے۔ یومِ اطفال کی تاریخی پس منظر بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد 1924ء میں "جنیوا میں بچوں کے حقوق کا اعلامیہ" سے شروع ہوئی۔ بعد ازاں 1959ء میں اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے "عالمی اعلامیہ" پیش کیا، جس میں بچوں کے تحفظ، صحت، اور تعلیم کو یقینی بنانے کے اصول شامل تھے۔ 1989ء میں "بچوں کے حقوق کے کنونشن" کی منظوری نے بچوں کے حقوق کو عالمی سطح پر ایک قانونی حیثیت دی، جسے بیشتر ممالک نے تسلیم کیا۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ: ایک اہم ذمہ داری یومِ اطفال کا مقصد صرف خوشیاں ...

ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن محمد ارسلان مجدؔدی

Image
  ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن محمد ارسلان مجدؔدی 25 اپریل کو ہر سال ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ عالمی ادارہ صحت   کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے اور عام لوگوں میں ملیریا سے بچنے کی معلومات عام الناس کو دی جاسکے۔ اس مرض کی درست تشخیص بروقت نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال دنیا میں 20 کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان میں 10 لاکھ ارفراد اس خطرناک بیماری کا شکار ہوتے ہیں ، اس کی وجہ سے 5 سال کم عمر   دو تہائی بچے شکار ہوتے ہیں۔ ملیریا کے خاتمے کے لیےپاکستان میں 3 ہزار ادارے قائم ہیں، جن کا ہدف ہے کہ یہ بیماری جلداز جلد ختم ہو سکے۔ آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ پاکستان کے تمام کے صوبوں میں 66 اضلاع متاثر ہیں۔ سب سے زیادہ دریا،نہر، ندی اور نالوں کے قریب رہائشی متاثر ہوتے ہیں جن کی اکثریت غریب ہے۔ افسوس یہ بیماری ہزاروں پاکستانیوں کی ہر سال جان لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ملیریاکے اعتباردنیا کے حساس ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس حوالے سے عالمی امداد اور سرکاری امداد ہونے کے باوجود پاکستانی محفوظ نہیں۔ مزدور، ٹرانسپورٹرز، جھونپڑی کے رہائشی غرض سندھ و بلوچستان ...

مضموم کلیجہ ازقلم: محمد ارسلان مجددی

Image
مضموم کلیجہ ازقلم: محمد ارسلان مجددی       صبح کی بارش کے بعد پرندے درختوں پر بیٹھے شور مچا رہے تھے۔ زمین تیز بارش کے باعث انتہائی گیلی ہو چکی تھی۔ آس پاس کے کھیتوں سے اٹھتی خوشبو اور ہلکی ہلکی ہوا نے موسم سہانا کر دیا تھا۔  12 سالہ شمائل اس موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھر رکنا چاہتی تھی، مگر ماں نے سختی کی کہ  نہیں اسکول جا کر وہاں اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے کھیلنا اور پڑھنا بھی۔۔۔ اسکول پہنچ کر شمائل کو معلوم ہوا کہ اب تک کوئی نہیں پہنچا مگر یہاں ایک بزرگ مالی پودوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے جنہوں نے قریب آ کر شمائل کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور پھر چھاؤں میں بیٹھنے کی تاکید کی اور پودوں کی صفائی میں مصروف ہو گئے۔ موسم کی خوشگواری نے شمائل کی آنکھوں میں نیند بھر دی۔ کلاس کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے وہ باقی بچوں اور اپنی ٹیچر کا انتظار کرنے لگی۔ مگر اسے معلوم نہیں تھا دور دراز گاؤں کے راستے بارش کے پانی سے خراب ہونے کی وجہ سے کوئی نہیں آ رہا۔ اسے نیند کے جھونکے آئے اور سو گئی۔ قریب 10 منٹ بعد بزرگ  مالی شمائل کے قریب آئے اور اپنے سر سے د...

اخلاق سب کا حق از قلم: محمد ارسلان مجددی

Image
  اخلاق سب کا حق از قلم : محمد ارسلان مجددؔی اکثر ہم یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ بیس یا پچیس سال کی عمر کے بعد کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سخت ذہن کے مالک بن جاتے ہیں۔ تنہا رہنا، کم بولنا، دوست نہ بنانا،دوسروں سے   اپنی بات کا اظہار نہ کرنا اور اپنی خواہشات کو محدود سے محدود کر دینا یہ ان کی عادات میں شامل ہو جاتا ہے۔ کبھی وجہ جاننے کی کوشش کریں تو سب کی ملتی جلتی   کہانی نظر آتی ہے ۔یہ جوان لڑکے یا   لڑکیاں جو ایک وقت میں بہت معاون، ہنس مکھ ، باتونی   اور شرارتی ہوتے ہیں۔ گھریلو سخت رویے، ہر وقت کی تنقید، طنز اور طعنے ان کے دل و دماغ کو   کمزور کر دیتے ہیں۔ احساس کمتری کسی بھی بچے کو پیدائشی طور پر فطرت میں نہیں ملتی مگر جب ہم بار بار کسی بچے کو اس کے خواہشات سے روک رہے ہوتے ہیں، خواہ وہ خواہشات اس قدرتی اور منفرد صلاحیت کو اجاگر   کرنےمیں   مدد بھی فراہم کر رہی ہو۔     ہم یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ   جسے ہم احساس کمتری کی طرف یا محدود سے محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کل کو یہی بیٹا یا بیٹی والدین، خاندان، قوم اور ملک کا نا...

عید کے موقع پر کراچی سے ٹھٹہ کا سفر محمد ارسلان مجددی

Image
  عید کے موقعے پر کراچی سے ٹھٹہ کا سفر    محمد ارسلان مجددی   میں عام دنوں میں اکثر سندھ کے تاریخی شھر ٹھٹہ کا سفر کرتا رہتا ہوں میری رہائش کراچی میں ہے ـ   عید الفطر کے موقع  پر آج بھی 5 مئی 2022 کی صبح کے پانچ بجے کراچی سے  میں نے ٹھٹہ کے لیے سفر کا آغاز کیا۔ قائدہ آباد سے ٹھٹہ تک تقریباً 90 کلومیٹر تک میں نے عوام کا رش دیکھا جو سیر و تفریح کی غرض سے اندرون سندھ کا سفر کر رہے تھے۔ کچھ لوگ اہل و عیال کے ساتھ تھے تو کچھ بغیر فیملی کے۔ خوشی ہوئی کہ لوگ بلا خوف و خطرہ خوشیاں منانے اندرون سندھ کا سفر کر رہے ہیں۔   کراچی میں لسانی نفرت پھیلائی جاتی ہے اس سب کو بھلا کر یہ سب لوگ سندھی بھائیوں کے درمیان خوشیاں مناتے ہیں۔ اسی خوشی کو دگنا کرنے کے لیے سندھی بھائی بھی پیش پیش تھے کہ مسافروں کے لئے ضرورت کی تمام دکانیں کھلی رکھیں جیسا کہ مکینک ، ٹائر پنکچر ، ہوٹل اور دوسری ضرورت کی دکانیں وغیرہ۔   صبح پانچ بجے اندھیرے میں کچھ لوگ گھگھر  پھاٹک سے گھارو تک اپنی گاڑیوں کو دھکا لگا رہے تھے تو کچھ لوگ ٹائر پنکچر لگوا رہے تھے تو کچھ سڑک ...

"مغربیت کا غلبہ اور ہم" از قلم: محمد ارسلان مجددی

Image
 " مغربیت کا غلبہ اور ہم " از قلم: محمد ارسلان مجددی ہم بچپن سے بلوغت تک  مختلف ذرائع سے سنتے اور جانتے آئے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کو اول دن سے کمزور کرنے کے لیے منافقین نے کئی  منصوبے بنائے۔ ابتداء صحابہ کرام کے ادوار  سے ہوئی جہاں اہل بیت اور صحابہ کرام کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ خیر اہل بیت اور صحابہ کرام سے محبت کرنے والے آج بھی دل سے حضور پاک  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے  دین پر عمل پیرا ہیں۔ جیسے ہم قیامت کے قریب ہو رہے ہیں دجالی فتنہ بڑھ رہا ہے۔ سادہ مسلمان جو احادیث اور قرآن پاک کا علم  انتہائی  کم  رکھتے ہیں ان کو  سوشل میڈیا پر مختلف  سوالات اور بہانوں  بہکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں   اب  فلم ، گانےاور فحاش زبان بولنے کا رواج آزادی کے نام پر عام کیا جا رہا ہے۔  یعنی مسلمان ہو کر کفار کی عادات اپنائی جا رہی ہیں۔   61 ہجری میں کربلا کے مقام پر جو کچھ ہوا اسے آج ہم تمام مسلمان دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ اہل بیت کی گستاخی، پھر ان کو تکالیف دینا اور انہیں شہید و رسو...

درد دل

Image
 افسانہ دردِ دل مصنف: محمد ارسلان مجددی وحید بیٹا میرا شربت پینے کو دل نہیں کر رہا ویسے بھی ڈاکٹر نے میٹھا کم استعمال کرنے کو کہا ہے۔ ایمان ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے بیٹے کو ڈانٹ رہی تھی۔ اتنے میں ایمان کا بڑا بیٹا اسد اور شوہر کمرے میں داخل ہوئے۔  اسد نے ماں سے پہلا سوال کیا: "امی جان آج تو آپ مجھے بتا ہی دیں ایسا کونسا درد سالوں سے دل میں لیے بیٹھی ہیں کہ دردِ دل کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور آپ کی جسمانی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کریں ورنہ بہت جلد ذہنی دباؤ کی وجہ سے اپنا ہوش گنوا دیں گی۔ آخر ایسا کیا ہے؟" اسد بیٹا ابھی مجھے کھانا کھانے دو۔ پھر شام کو فرصت سے ہم سب بیٹھیں گے تو کچھ احوال سنا دوں گی۔ پانچ منٹ بعد گھر کے سبھی افراد بھنڈی کے سالن اور لسی سے کھانے کا لطف لے رہے تھے۔ کھانا کھاتے ہی سبھی جسم کو آرام دینے کے لیے سو گئے۔ کیونکہ صبح نماز فجر کے وقت اچانک ایمان کو ہسپتال لے جانا پڑا اور اسی کشمکش میں کسی کو ناشتہ کرنے کا ہوش تک نہیں رہا تھا۔ اسد، وحید اور بڑی بہن تنزیلہ تینوں نماز عصر پڑھ کر شیشم کے درخت تلے چار پائی بچھ...